مولانا نے کہا کہ عمران خان ملک کے وزیراعظم نہیں رہے نا ان کے کے لیے دوبارہ نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے، ان کی جانب سےلہرایا گیا خط بھی جھوٹ ہے جس میں غیر ملکی مداخلت کےکوئی اثرات نہیں ہیں۔
وزیراعظم سیاسی شہید بننے کی کوشش مت کریں، ان کی کرپشن کی داستانیں سن کر لوگ اپنے کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، دوسروں کو این آر او نہ دینے کا دعویٰ کرنے والے خود این آر او کیلئے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہنا ہے کہ عمران خان سےبات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تحریک عدم اعتماد ہرحوالے سےکامیاب ہوگی اور مارچ کا اسلام آباد پہنچنے سےپہلےحکومت کابستر گول ہوچکا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے 1992کےعدالتی فیصلے کا حولہ دیتے ہوئے بتایا کہ اُس سال بہت کچھ ہوا لیکن اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئی، سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نےوزیراعظم کےخلاف ووٹ دینےکا کہا، اس بات کے جواب میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کا حق پارٹی اراکین نہیں اراکین اسمبلی کو ہے۔
علیم گروپ کاتحریک عدم اعتماد اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی پر "نیوٹرل" رہنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ان کی حکومت سے ناراضگی اور تحفظات برقرار ہیں تاہم انہیں گورنر سندھ، گورنر خیبر پختونخوا، وفاقی وزرا نے سیاسی سیز فائر پر رضامند کرلیا ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین عدم اعتماد پر ساتھ دے رہے ہیں، وزیراعظم 4 سال سے چور چور کا شور مچاتا رہے ہیں، اب گھروں سے نکلیں اور لوگوں کو بتائیں یہ ہیں چور اور ڈاکو ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتنی کھلی مسلم دشمنی کہ اسلامی کانفرنس روکنے کی دھمکی؟ کانفرنس تو ہوگی، مسلم امہ کی یکجہتی کا اظہارِ بھی ہوگا اور دنیا بھی دیکھے گی، روک سکو تو لو۔
سندھ حکومت کے ذمہ داران اپنے ورکرز کو اشتعال دلارہے ہیں، شہلا رضا نے بھی کہا کہ ورکرز تیار رہیں، ریاست کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے، الیکشن کمیشن ان بیانات کا نوٹس لیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ مسائل پر بات چیت ہونی چاہئے، پہلے بھی کہا تھا کہ تلخیاں اتنی پیدا نہ کریں کہ آپس میں مل بیٹھنا ہی مشکل ہو جائے، تلخیوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے، اپوزیشن لوٹے پنے سے باز آئے اور آئین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کے مطابق آگے چلے۔
شہباز گل کے الزامات کے بعد پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی جانب سے دھمکیاں بھی دی جا رہی ہے اور اگر وزیراعظم کے معاون خصوصی نے معافی نہ مانگی تو ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ دس لاکھ کے مجمع سے گزر کر عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنا ہو گا لیکن جب کوئی ووٹر ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کر لے تواسے دس لاکھ تو کیا دس کروڑ کا مجمع بھی نہیں روک سکتا۔
حکمران جماعت کے کارکنان نے سندھ ہاؤس کے دروازے پر لیتیں مار کر دروازہ توڑ دالا اور احاطے میں داخل ہوگئے جبکہ ان کے ہمراہ پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی عطاللہ نیازی بھی موجود ہیں۔
عدم اعتماد کی تحریک والے دن ہمارا کوئی رکن پارلیمنٹ نہیں جائے گا، اتحادی ہمارے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے لیکن اگرہمارے کسی رکن نے ووٹ دیا تو وہ اپنے حلقے کی عوام سے غداری کرے گا۔
علیم خان کی کچھ ناراضگیاں ہیں، ان سے تین بار ملاقاتیں ہوچکی ہیں لیکن فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے، چودہری برادران ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ علیحدہ ہونا اتنا آسان کام نہیں۔
سابق وزیراعظم اور لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ 162 نمبرز اپوزیشن اور ایک جماعتِ اسلامی جبکہ حکومتی جماعت کے دو ارکان بھی ووٹ فراہم کریں گے جس سے 7 ووٹ کا فرق رہ گیا ہے۔